سابق اسٹوڈینٹ یونین لیڈر عمر خالد اور خالد سیفی دہلی فسادات معاملے میں بری؛ لیکن یو اے پی اے کی بناء پر جیل سے نہیں ملے گی رہائی
نئی دہلی 3/ڈسمبر (ایس او نیوز) دہلی کی ایک عدالت نے جے این یو اسٹوڈینٹ یونین لیڈر عمر خالد اور یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ کے رکن خالد سیفی کو 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات سے منسلک ایک کیس سے باعزت بری کر دیا ہے۔ لیکن دہلی فساد کیس میں بری ہونے کے باوجود
دونوں سی اے اے مخالف کارکن جیل میں ہی بند رہیں گے۔ کیونکہ وہ دہلی فسادات کے بڑے سازشی کیس میں ایف آئی آر 59/2020 میں اب تک ضمانت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان دونوں پر فسادات اور مجرمانہ سازش کے دیگر الزامات کے ساتھ، ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) بھی لاگو کیا گیا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج پلستیہ پرماچلا نے3/ ڈسمبر کو کھجوری خاص پولیس تھانہ میں درج ایف آئی آر 101/2020 میں عمر خالد اور خالد سیفی سمیت طارق معین رضوی، جگر خان اور محمد الیاس کو بھی دہلی فساد کیس سے بری کر نے کا حکم سنایا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ضابطہ فوجداری قانون 1973 (سی آر پی سی) کے تحت، ڈسچارج کی درخواست ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے اُس شخص کو راحت دلائی جاسکتی ہے جس پر بدنیتی کے تحت الزام لگایا گیا ہو۔
میڈیا میں آئی رپورٹوں کے مطابق عمر خالد کو ستمبر 2020 میں دہلی پولس نے گرفتار کیا تھا، اس ضمن میں خالد نے عدالت کو بتایا تھاکہ دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں ہوئے تشدد میں اس کا نہ تو کوئی کریمنل رول ہے، نہ ہی اس کیس میں کسی دوسرے ملزم کے ساتھ کوئی سازشی رابطہ ہے۔ خالد، شرجیل امام اور کئی دیگر کے خلاف UAPA اور تعزیرات ہند کی دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور مبینہ طور پر انہیں فروری 2020 میں دہلی میں ہوئے فسادات کا "ماسٹر مائنڈ" قرار دیا گیا ہے ۔ جس میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
عمر خالد نے عدالت کو بتایا کہ فروری 2020 میں ان کے خلاف استغاثہ کے مقدمے کی حمایت کرنے کے لیے کوئی مواد موجود نہیں ہے اور فروری 2020 میں اس کی امراوتی تقریر جس کی بنیاد پر اس پر الزامات عائد کئے گئے تھے، نہ صرف عدم تشدد کی دوٹوک دعوت تھی بلکہ کہیں بھی تشدد کا باعث نہیں بنی ۔
کرکرڈوما عدالت نے سنیچر کو جیسے ہی عمر خالد کو ایف آئی آر 101/2020 میں فیصلہ سناتے ہوئے دہلی فساد سے بری کرنے کا حکم سنایا، عمر خالد کے والد سید قاسم رسول الیاس نے اخبارنویسوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ "ہمیں یہ حکم سن کر بہت خوشی ہوئی، انہو ں نے کہا کہ ہم بہت خوش ہیں۔ چارج شیٹ جھوٹی اور من گھڑت تھی۔ عمر خالد کو ایف آئی آر 101/2020 میں ڈسچارج کر دیا گیا ہے، لیکن اسے ایف آئی آر 59/2020 میں ضمانت ملنا باقی ہے۔ دونوں ایف آئی آرز میں ایک جیسے الزامات ہیں۔ لیکن صرف اس لیے کہ ایف آئی آر 59 کے ساتھ یو اے پی اے منسلک ہے، عمر خالد کو وہاں ضمانت نہیں دی گئی۔ لیکن اب ہمیں امید ہے کہ اسے ایف آئی آر 59 میں بھی ضمانت مل جائے گی۔