ہریانہ کے نوح میں تشدد کے واقعات پراے پی سی آر کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ؛ شرپسند عناصروں کی غنڈہ گردیوں کے بعد انتظامیہ نے بلڈوزر کے ذریعے کی انہدامی کاروائی
نئی دہلی 10/اگست (ایس او نیوز): 31 جولائی کو ہریانہ کے نوح میں ہوئے پرتشدد واقعات کے بعد پورے علاقہ میں خوف وہراس کی لہر پائی جارہی ہے، لوگ اپنے اوپر ہوئے ظلم اور زیادتی کی شکایتیں پولس تھانہ میں درج کرانے میں بھی خوف محسوس کررہے ہیں۔ ایک طرف شرپسندوں نے یہاں غریبوں پر ظلم ڈھایا اورمکانوں اور دکانوں سمیت ایک مسجد کوبھی نذرآتش کرتے ہوئے مسجد کے امام کو موت کے گھاٹ اُتار دیا وہیں شرپسندوں کی غندہ گردیوں کےبعد مقامی انتظامیہ نے غریب جھونپڑوں اور سڑک کنارے تعمیر سینکڑوں باکڑوں کو بلڈوزر کے ذریعے منہدم کردیا۔
تشدد سے متاثرہ علاقہ کے عوام کے دلوں میں بیٹھے ہوئے خوف کو دور کرنے اورعوام میں اعتماد بحال کرنے کے ساتھ ساتھ تشدد کے واقعات کے اسباب، اس کے پیچھے چھپے سازشی ذہنوں کا پتہ لگانے اور سچائی سے پردہ اُٹھانے شہری حقوق کے لئے قائم ادارہ اسوسی ایشن فور پروٹیکشن آف سیول رائٹس (اے پی سی آر) نے کمیونٹی لیڈران، سماجی کارکنان، صحافی اور وُکلاء پر مشتمل ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ترتیب دی اور متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور مکمل تحقیق، متاثرہ لوگوں کے انٹرویوزاور شہادتیں جمع کرتے ہوئے رپورٹ ترتیب دی۔ ٤٤ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کو میڈیا کے سامنے ریلیز کیا گیا ہے جس میں نوح میں ہوئے فساد کو نظامی تشدد قرار دیا گیا ہے اوراس میں پولیس کی ملی بھگت کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مقامی انتظامیہ کو تشدد کے واقعات ہونے کی پیشگی اطلاع کے باوجود اسے روکنے کےلئے کسی بھی طرح کے اقدامات نہیں کئے گئے ۔ سوشیل میڈیا پر اشتعال دلانے والی نفرت سے بھری تقاریروائرل ہورہی تھیں، مونو مانیسر اور بٹو بجرنگی جیسے لوگ اشتعال انگیزی کرنے میں لگے ہوئے تھے، مگر انتظامیہ نے ہنگاموں کو روکنے کے لئےکسی بھی طرح کی بروقت کاروائی نہیں کی۔ کمیونٹی لیڈران اور وُکلاء نے واضح کیا کہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ تشدد برپا کیا گیا۔ متاثرہ لوگوں نے پولس کی ملی بھگت کی نشاندہی کراتے ہوئے کئی وڈیوز شواہد کے طور پر پیش کئے، جس کے ذریعے اس بات کا انکشاف ہوا کہ پولس کی موجودگی میں ہی توڑ پھوڑ کرتے ہوئے شرپسند حملے کررہے تھے اور لوگوں کو دھمکارہے تھے۔ تشدد کے بعد بالخصوص مسلم کمیونٹی پر اُس وقت مزید ظلم کےپہاڑ توڑے گئے جب مدد کی پیشکش کرنے کے بجائے انتظامیہ خود مسلمانوں کی ملکیتی املاک کو مسمار کرنا شروع کردیا۔ بے گناہ افراد کے خلاف من مانی حراستیں اور اذیتیں دی گئیں، خوف اور جبر کی فضا کو برقرار رکھا گیا۔ ان کارروائیوں سے متاثر ہونے والوں کی شہادتیں، بشمول کمیونٹی لیڈرز اور کنبہ کے افراد نے، غیر منصفانہ گرفتاریوں، تشدد اور املاک کی تباہی کے ہولناک اثرات کو ظاہر کیا۔ مسلمانوں کے خلاف من مانی الزامات عائد کیے گئے۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق تشدد کے بعد بلڈوزر کے ذریعے جس طرح کی کارروائیاں انجام دی گئی، اُس نے غریبوں خاص طور پرمسلمانوں کو معاشی طور پر تباہ و برباد کردیا ہے اور بڑے پیمانے پرلوگوں میں خوف وہراس پیدا کرتے ہوئے حکام پر سے اعتماد کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں متاثرہ لوگوں کو انصاف دلانے،انتظامیہ کااحتساب کرنے اور انتظامی اور پولیس کی ناکامیوں کی مکمل تحقیقات کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے جس نے تشدد کو پھیلنے اور بڑھنے کا موقع فراہم کیا۔
نئی دہلی میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اے پی سی آرنیشنل سکریٹری ندیم خان نے واضح کیا کہ نوح میں ہوئے فسادات بے ساختہ نہیں تھے بلکہ اسے منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو معاشی طور پرکمزور کرنے پہلے یہاں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں میں دنگائیوں نے حملے کئے بعد میں مقامی انتظامیہ نے سڑک کنارے تعمیر کردہ مکانات، پان کی دکانیں، باکڑے، گاڑیوں کی مرمت کرنے کے گیراج، ٹائر پنکچر کے گیراج اور چھوٹے تھیلا والوں کی دکانوں وغیرہ کو بلڈوزر کے ذریعے مسمار کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ متعصبانہ وڈیو کلپس کو سوشیل میڈیا پر وائرل کرکےتشدد کے لئے عام لوگوں کو اُکسایا گیا تھا، جب منصوبے کےمطابق تشدد برپا ہوا تو مسلمانوں اور غریب لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ تشدد کے واقعات میں چھ لوگوں کی موت واقع ہوچکی ہے، پولس نے زیادہ تر غریب اور بے قصور لوگوں کو حراست میں لیا ہے یہی وجہ ہے کہ علاقہ کے غریب اور مظلوم لوگ بے حد پریشان ہیں۔ ندیم خان نے پولس پر زور دیا کہ وہ مظلوم عوام کو انصاف دلانے کے لئے اُن کی شکایتوں کو درج کریں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایڈوکیٹ رمضان چودھری نے بتایا کہ آزادی کے بعد خطے میں ترقیاتی کاموں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق حالیہ تشدد کو بٹو بجرنگی اور مونو مانیسر جیسے شرپسندوں نے بھڑکایا جو امن میں خلل ڈالنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ضلع نوح کے بار کونسل کے ضلعی صدرایڈووکیٹ طاہر حسین دیولہ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح انتظامیہ نے پرتشدد جھڑپوں کے لیے اکسانے والوں کو گرفتار کرنے کے بجائے علاقہ کے عام اورغریب لوگوں کو من مانے طو پر گرفتار کیا،انہوں نے بتایا کہ گرفتار شدگان میں تشدد کے دن تاج محل کی سیر کرنے کے لئے گئے ہوئے لوگ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنا مشاہدہ پیش کرتے ہوئےبتایا کہ انہوں نے میوات میں خوفناک مناظر دیکھے ہیں جس میں گھروں اور بچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
تشدد میں شہید ہونے والے مسجد کے امام سعد کے بھائی شاداب انور نے اپنے بھائی کی موت پر انصاف کا مطالبہ کیا اور حملہ آوروں کو گرفتار کرنے اور اُن کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت ہریانہ سے معاوضہ اور حکومت بہار سے ان کے پسماندگان کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی اپیل کی۔
آزاد صحافی صباح گرمت نے تشدد سے متاثرہ علاقوں میں خواتین اور بچوں کی تشویشناک حالت زار پر روشنی ڈالی اور کہا کہ حالات اتنے خوفزدہ ہیں کہ لوگ ایف آئی آر درج کرنے میں بھی خوف محسوس کررہے ہیں۔ صباح نے خواتین کے ساتھ پولیس کے ناروا سلوک، عصمت دری کی جھوٹی افواہوں، اور انٹرنیٹ بند کے ذریعے آوازوں کو دبانے کی مثالوں کی بھی نشاندہی کی۔
ڈاکٹر اوم پرکاش دھنکر، کوآرڈینیٹر، آل انڈیا کھاپ پنچایت نےکہا کہ کس طرح حالیہ واقعات حکومتی سازش کی عکاسی کرتے ہیں انہوں نے شرپسندوں کے خلاف درج مقدمات میں سیاست کے کردار پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے پرتشدد واقعات کو روکنے کے لیے معاشرے کے اندر اتحاد اور خود احتسابی کی ضرورت پر زور دیا۔
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے نوح میں فسادات کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پر اے پی سی آر کا شکریہ ادا کیا اور مین اسٹریم میڈیا پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ حقائق پر مبنی رپورٹنگ نہیں کررہے ہیں۔ انہوں نے نوح میں ہوئے فسادات میں مقامی انتظامیہ کی شمولیت پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مذموم مقاصد کے حصول کے لئے اور تشدد برپا کرنے کی نیت سے ہی جلوس نکالاگیا تھا۔
راجیہ سبھا کے سابق رکن پارلیمان محمد ادیب نے بعض گروہوں کے ساتھ پولیس کی وابستگی پرتشویش کا اظہار کیا اور انصاف کے لیے لڑنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے عدالتوں میں مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے ملک کے موجودہ حالات پرعام لوگوں کی خاموشی پر بھی تشویش جتائی اور کہا کہ ظلم کے خلاف آواز اُٹھانا بے حد ضروری ہے انہوں نے اس طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے عوام میں اتحاد قائم کرنے اور پیشگی طور پر اقدامات کرنے پربھی زور دیا۔